Post by Sukhanwar on May 21, 2012 0:37:06 GMT 5
Uploaded with ImageShack.us
شاہد لودھی ملتان کے ایک ایماندار سیاسی سوچ بچار کرنے والے کارکن ہیں وہ ہمیشہ بائیں بازو کی سیاست کرتے آ رہے ہیں پیر کے روزدو پونے دو بجے انہوں نے اطلاع دی چا چا عطا اللہ ملک ایک پرائیویٹ ہسپتال میں فوت ہو گئے ہیں میں گھر سے نکلا تو سیدھا ان کے گھر واقع بیرورن دولت گیٹ پہنچااُن کے ہمسایہ میں دروازے پر خواتین جمع تھیں چا چا کا گھر ویرانی کا منظر پیش کر رہا تھا۔ان خواتین سے استفسار کیا تو انہوں نے بتایاہاں وہ انتقال کر گئے ہیں ، ان کی میت ان کے چھوٹے بیٹے جمال کے گھر واقع شاہ رکن عالم لے جائی گئی وہاں سے اُن کا فون نمبر معلوم ہوا تو ان کی رہائش گاہ معلوم ہوئی ، جنازہ جلا ل باقری مسجد میں اگلے روز صبح 8بجے پڑھایا گیا۔چا چا عطااللہ ملک 1922ء میں پیدا ہوئے انہوں نے اپنی جوانی اہم ماہ وسال مجلس احرار کی سیاست میں گزارے عطا اللہ شاہ بخاری کے متقد خاص تھے اور ان کی محبت میں اپنے چہرے پر داڑھی کو بھی سجا لیا تھا ۔
پاکستان بننے کے بعد عطاء اللہ ملک نے کروٹ بدلی مشرقی پاکستان کے حسین شہید سہروردی کے ساتھ جاملے ، پھر مولانا عبدالحمید بھاشانی کی سیاست مین پناہ لی اور وہاں سے سرخ پوشوں کے ملتان مین دست و بازار بن گٖئے۔ 1965کی جنگ کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو کا پاکستان میں طوطی بول رہا تھااُس وقت عطاء اللہ ملک اے این پی کے ساتھ بندھیہوئے تھے۔حسین آگاہی میں سوویت یونین چین رومانیہ اورکوریا کے سو شلسٹ لٹریچر کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کر رہے تھے ان کی کتابوں کی دکان پر بائیں بازوکی فکر سے متعلق چھپنے والی کتابیں فروخت ہوتی تھیں سرائکی وسیب میں چاچا عطا اللہ ملک کی واحد دکان تھی، جہاں سے سندھ تک کتابیں جاتی تھیں۔ان کی سیاسی رواداری کا یہ عالم تھا کہ تمام جماعتوں کے اہم ارکان فکری اور نظر یاتی اختلافات کے با وجود ان کی دکان پر تشریف لایا کرتے بحث مباحثے رہتے تھے۔عطاء اللہ ملک بنیادی طور پر انسان دوست تھے۔وہ کسی فکر ی اور نظریاتی اختلاف کے باوجود انسان کا احترام کرتے تھے۔
جماعت اسلامی کے عقیل صدیقی اور دوسرے زعما کی ان سے دوستی ہوا کرتی تھی یہ الگ بات ہے کہ انہی رہنماؤں کیقیادت میں ان کی کتابوں کی دکان کو آگ لگا دی تھی دکان میں قرآن حکیم کے نسخے بھی موجود تھے وہ شہیدہوگئے تھے۔اس وقت کے اخبارات میں اس آتشزنی کی واردات کی خبریں نمایاں شائع ہوئی تھیں ۔بھٹوکی تحریک کو مقبول بنا نے میں عطاء اللہ ملک کی دکان نیا مکتبہ کا اہم کردار تھا۔یہ الگ بات ہے کہ عطاء اللہ ملک سرمایہ داری اور کارکن کے ملے جلے نظام کے یکسرمخالف تھے لیکن جاگیرداری نظام سے یہ نظام ایک قدم آگے تھا،غالباََ یہی وجہ تھی عطاء اللہ ملک بھٹو کی تحریک میں آگے آگے تھے ۔آخر وہ وقت بھی آ گیا جب بھٹو نے پاکستان میں وقت سے پہلے انتخابات کرانے کا اعلان کیا 1977ء میں انتخابات کا اعلا ن ہوا، ملتان سے پنجاب کے وزیر اعلیٰ نواب صادق حسین قریشی کے مقابلے میں چاچا عطااللہ ملک نے کاغذات دا خل کرائے ، ملک کے تینوں صوبوں کے وزراء اعلیٰ اپنے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے بلا مقابلہ منتخب ہونے کی اتباع میں خود بھی بلا مقابلہ منتخب ہونے کیلئے مخالف امید واروں کو غائب کرادیا۔
عطا اللہ ملک بھی اغواء کرائے گئیگو کہ ان کے نواب صادق حسین قریشی سے اچھے تعلقات تھے لیکن سیاست میں عطاء اللہ ملک ڈٹ گئے۔یہاں سے پورے پاکستان میں عطا اللہ ملک کی شہریت کا ڈنکا بج گیاتحریک اس کے بعد انتخابات میں مخالف جماعتوں نے ایکا کر لیا۔ چھوٹی بڑی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرایا گیا اسے ہل کا انتخابی نشان ملا۔لیکن قومی اتحاد کی تحریک میں بھی عطاء اللہ ملک نے سیاسی اخلاقیات کا ساتھ نبھایا۔اور بائیں بازو کی سیاست کا علم تھامے رکھا ۔گو کہ اس وقت اے این پی پر پابندی عائد کی جا چکی تھی اسے غیر قانونی قرار دیاجا چکا تھا اس کے لیڈروں کو حیدر آباد میں قیدکیا گیا۔ ان پر وہاں غداری کے مقدمات چل رہے تھے۔ لیکن عطاء اللہ ملک کے اے این پی میں رہتے ہوئے بھی پیپلز پارٹی سے کبھی بھی شخصی اختلافات نہیں تھے ۔لیکن وہ دائیں بازو کے پلڑے میں کبھی نہیں بیٹھے انہوں نے سیاست میں عوامیحقوق کی بازیابی اور عام آدمی کی خوشحالی کی آرزوں میں اپنا سب کچھ قربان کردیا کتاب سے ان کا آخری دم تک رشتہ بر قرار رہا ۔ملک و قوم کے اس قدر خدمات انجام دینے کے با وجود کسی قومی لیڈر نے پلٹ کر پیچھے نہیں دیکھا ، وہ کن حالات سے دو چار رہے ۔کس طرح زندگی کا پچھلا پہر گزارتے رہے کسی کو خبر نہیں ،نہہی عطاء اللہ ملک نے اس کا کبھی کسی سے شکوہ کیا ۔
عطااللہ ملک ایک عہد ایک روایت اور ایک زمانے کا نام تھا، جو گزشتہ روز لد گیا ایسے لوگ کہاں ملتے ہیں پرانی رویت کے امین لوگ اب کہاں رہے یہ غالباََ آخری چراغ تھا جو گل ہو گیا۔یہ کریڈیٹ بلا شبہ خبریں کو جاتا ہے کہ اس نے عطاء اللہ ملک کی شخصیت کا ادراک کیا اس طرح خبریں نے ثابت کیا کہ وہ ایک عوامی اخبار ہے یہی وجہ ہے خبریں ہر جگہ پڑھا جاتا ہے منگل کے روز جلال باقری مسجد میں چاچا عطاء اللہ ملک کی نمازہ جنازہ پڑھائی گئی ۔عطاء اللہ شاہ بخاری کے نواسے محمد کفیل بخاری نے نماز جنازہ پڑھائی، عطاء اللہ ملک ہر کسی کے جنازہ میں شرکت کرتے تھے اس سلسلے میں وہ کسی اختلاف کو آڑے نہیں آنے دیتے تھے۔کیاکارکن کیا جاگیردار کیا سرمایہ دار کی مولوی کیا پیر فقیر کیا تاجر کیادانشور عطا اللہ ملک ہر جگہ نظر آتے تھے وہ عجب شان کے مالک تھے بے غرض بے لوث آدمی تھے۔ عجب مرد آزاد تھے ۔وہ اپنے شہر ملتان ، اس گلیوں اور کوچہ و بازار سے محبت کرتے تھے، اپنے وسیب اور وسیب کے لوگوں کی محرومی کی ہمیشہ بات کرتے ، میرا خیال میں ایسے لوگ مرکز بھی زندہ ہوتے بھلے شاہ اساں مرناں ناہیں ، گور پیا کوئی ہور۔