Post by sidrasaharimran on Sept 18, 2011 20:51:24 GMT 5
سنتے ہیں کہ کسی زمانے میں ایک لیلی ہوتی تھی۔تھوری سانولی تھی پر اپنی ماں سے بہت ڈرتی تھی۔۔۔بھلے زمانے تھے ۔لڑکیاں ماں کی گھوری کو ہی بہت سمجھتی تھیں ۔بچاری کو محبت کا مرض لگ گیا ۔۔۔۔۔۔ایسا لاعلاج مرض ۔۔۔۔۔مر کے ہی گلو خلاصی ہوتی ۔اور محبت بھی کس سے ۔۔۔۔۔۔سوکھے ،چمرخ مجنوں سے ۔۔۔۔۔جو سارا دن آوارہ گردی کرتا اور خاک پھانکتا تھا۔لوگ کہتے ہیں اس نے محبت میں ناکامی کے بعد یہ پیشہ اپنایا تاہم ہمیں یقین ہے کہ وہ شروع سے ہی نکما تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آج کل کے ’’برانڈڈ‘‘ مجنوں نیٹ کیفوں میں خوار ہوتے ہیں یا کالجوں ،پارکوں کے باہر آنکھیں سینکتے ہیں تب کہاں اتنی ’آزادی‘‘ہوتی۔پردے دار محبتیں تھیں ۔۔۔۔۔اتنا کھلا ڈلا ماحول ۔۔۔۔۔۔توبہ ۔۔۔۔۔سوچنا بھی محال تھا ۔ایک جھلک دیکھنے کے لئے مہینوں گزر جاتے تھے ۔تب کہیں جا کر محبوبہ کا دیدار نصیب ہوتا اور مہینے بھر کا سامان ہو جاتا ۔نئے دور کے مجنوں تو سامنے دیکھتے ہوئے بھی ’’پچھلی‘‘پر نظر رکھتے ہیں اور لیلائیں ۔۔۔۔۔جو مغرور ہوئیں تو بھول ہی گئیں کہ ان کا تعلق ’’صنف نازک ‘‘سے ہے۔سانولے پن کو تو پارلرز والیوں کی کرامات نے بہت حد تک چھپادیا ہے۔کھردرا پن جوں کا توں بر قرار ہے۔جو کہ نئے دور کی مہر بانی ہے۔ہائے وہ معصومیت ۔۔۔۔۔۔۔۔خواب ہوئی۔
ہاں تو کیا کہہ رہے تھے ہم کہ پرانے زمانے میں ایک لیلی ہوتی تھی ۔ویسے پرانے زمانے میں بھی اتنا نیا نویلا نسوانی نام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پتہ نہیں لیلی کی اماں نے رکھا تھا یا ابا میاں نے ۔۔۔۔یا کسی دادی ،نانی نے ۔۔۔۔۔یہ تو لیلی ہی بتا سکتی ہے۔ور نہ فکاہیہ غزلیات کے خالقین نے لیلی کی ماں کو جس قدر خرانٹ ور بد مزاج دکھایا ہے وہ ایسا شاعرانہ نام نہیں رکھ سکتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسی رشتے دار نے ہی رکھا ہو گا کہ ’’اباحضور‘‘تو کسی دور میں بھی قابل احترام نہیں رہے‘(بیوی کی نظر میں )۔۔’’لیلی ‘‘نام اپنی خوب خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے ۔ہم جیسے انگریزی گٹ پٹ کے ڈسے ہوئے چونک چونک جاتے ہیں ۔مجنوں کو بھی اس کے نام نے چونکایا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر اس نے عشق میں نکما ہونے کا سرٹیفیکیٹ لینا ہی تھا ۔دن رات لیلی کے نام کی مالا جپا کرتا ۔صبح سرگی ویلے لیلی کی گلی کے نکڑ پر آکر کھڑا ہوجاتا کہ لیلی نے کوئی سودا سلف تو نہیں منگوانا ۔۔۔۔۔۔بڑا دردمند انسان تھا ۔جانتا تھا کہ لیلی کی ماں نے اسے صلواتیں ہی سنانی ہیں ناشتے میں ۔۔۔اس لئے اس کے لئے حلوہ پوری روما ل میں باندھ کے لے آتا اور لیلی کے کمرے کی کھڑ کی میں رکھ دیتا ۔آج کل کے عاشق نامراد تو بلا کے کام چور، سست اور تساہل پسند ہیں ۔کام کرتے ہوئے موت پڑتی ہے۔ناشتہ کھانا تو دور کی بات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔نوکری کرنے سے بھی جان جاتی ہے ۔بس دل چاہتا ہے فراز کے مصرع میں ڈوبے رہیں
بیٹھے رہیں تصور جاناں کئے ہوئے
شرماتی ،لجاتی لیلی پچھواڑے میں جا کر ناشتہ ٹونگ لیتی تھی ۔اماں سیر سپاٹوں کو نکل جاتی ۔لیلی،جہیز کی چادروں پہ پھول بوٹے کاڑھتی (عشقیہ شعر بھی تکئے کے غلافوں پہ کاڑھنے کا رواج تھا) صفائی ستھرائی ،لیپ لپائی،ہانڈی روٹی،کپڑوں کی دھلائی ۔۔۔۔۔۔۔کاموں کا انبار اور ایک اکیلی جان ۔۔۔۔۔پھر بھی مسکرتی رہتی،تھکن نہ ماتھے پہ شکن۔۔۔۔۔جبکہ ااج کل کی لیلائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔جھاڑو پکڑتے ہی انہیں ڈسٹ الرجی ہو جاتی ہے۔برتنوں کی دھلائی سے ناخنوں کی لمبائی متاثر ہونے کا خطرہ ،کپڑوں کی دھلائی کا سوچ کر ہی کمر میں ’’چک‘‘پڑ جاتی ہے ۔ہانڈی روٹی تو دور کی بات۔۔۔البتہ کوکنگ پروگرامز بہت غور سے دیکھتی ہیں ۔کھانا پکانے میں دلچسپی کی بنا پہ ہیں ۔ہوسٹس سکے بو تیکی کپڑوں اور کراکری کی وجہ سے۔۔
لیلی چونکہ پڑھی لکھی نہیں تھی ۔اس لئے مجنوں جو اسے خط لکھتا وہ خود ہی پڑھا کرتا تھا۔وہ خود کون سا پڑھا لکھا تھا ۔اس لئے جو حال دل آڑھی ترچھی لکیریں میں بیان کرتا ۔ظاہر ہی اسے ہی سمجھ آسکتا تھا ۔عطر میں بھیگا ہوا پریم پتر وہ بڑی محبت سے تکئے کے نیچے رکھا کرتا۔ایک دن اس کے ابا نے عطر کی خوشبو کا تعاقب کرتے ہوئے ۔اس کا محبت نامہ کھول کر پڑھ لیا اور غیرت سے اس کی آنکھیں ابل پڑیں ۔قریب لگے شیشم سے لکڑی توڑ کراس نے مجنوں کی وہ ٹھکائی کی ۔۔۔وہ ٹھکائی کی کہ اس کی ساری عاشقی ناک کے راستے باہر آگئی۔ابا نے متن دیکھ کر اندازہ لگایا تھا کہ وہ عشقیہ خط ہے۔اور جب مجنوں نے بتایا کہ وہ تو مولانا صاحب نے تعویزلکھ کر دیا تھا کاروبار میں اضافے کے لئے تو ابا نے وہ خط جسے وہ پرزوں میں اڑا چکے تھے پھر ہائے وائے کرتے پرزے اٹھااٹھا کر جوڑنے لگے ۔دور بڑا اچھا تھا بس لوگ پڑھے لکھے نہیں تھے ۔اس لئے غریب مجنوں پٹ جاتے تھے۔
اتنی مار کھانے کے بعد مجنوں نے خط لکھنے کا ارادہ ترک کیا اور ابا کے ساتھ امرود کی ریڑھی لگالی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ادھر لیلی بچاری حیران وپریشان کہ مجنوں کو کیا ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسے حلوہ پوری کیا یاد ستا رہی تھی مگر مجنوں کو غیرت آگئی تھی۔اس زمانے میں آہی جاتی تھی۔۔۔۔۔آج کل تو خال ہی نظر آتی ہے۔ان ہی دنوں لیلی کے لئے رانجھے کے دور کے رشتے دار کا رشتہ آگیا ۔رشتہ معقول تھا ۔ان کا خاندانی بنسریاں بنانے کا کارخانہ تھا ۔کھاتی پیتی فیملی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیلی کی ماں تو راضی بہ رضا تھی ۔لیکن لیلی کیا کرتی ۔وہ تو قیس کے پاجامے کرتے کی اسیر تھی۔اداس بلبل بنی سارا دن پیپل کے پیڑ تلے بیٹھ کر غمگین ٹپے گاتی ۔اڑتی پڑتی خبر مجنوں کو بھی ہوگئی۔اس کے ہاتھون کے سارے امرود اڑ گئے۔۔۔مطلب نیچے گر گئے ۔۔۔۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی وہ ابا کے قدموں میں
قصہ مختصر!ظالم سماج ہمیشہ آڑے آتا رہا ہے (ویسے نہ ائے تو لازوال محبتوں کے قصے کبھی معروف نہ ہوں )۔لیلی کی ماں نے چٹا انکار کر دیا کہ سوکھا سڑا مجنوں جسے خود دو وقت کی روٹی بمشکل نصیب ہوتی ہے ۔اس کی لاڈلی بیٹی کا کہاں سے کھلائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ا س دور میں ڈائٹنگ کا ’’فیشن ‘‘نہ تھا ورنہ لیلی بہانہ کر لیتی ۔۔۔۔بے چاری ماں کی مرضی کے آگے مجبور ہوگئی اور مجنوں جس کا نام قیس تھا ۔۔ناکام محبت کا غم سہار نہ پایا ۔دشت کی خاک چھاننے کھڑا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔سنتے ہیں کہ بعد میں لکڑ ہارا بن گیا تھا۔ہاں تو ہم کیا کہہ رہے تھے کہ ایک تھی لیلی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ہاں تو کیا کہہ رہے تھے ہم کہ پرانے زمانے میں ایک لیلی ہوتی تھی ۔ویسے پرانے زمانے میں بھی اتنا نیا نویلا نسوانی نام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پتہ نہیں لیلی کی اماں نے رکھا تھا یا ابا میاں نے ۔۔۔۔یا کسی دادی ،نانی نے ۔۔۔۔۔یہ تو لیلی ہی بتا سکتی ہے۔ور نہ فکاہیہ غزلیات کے خالقین نے لیلی کی ماں کو جس قدر خرانٹ ور بد مزاج دکھایا ہے وہ ایسا شاعرانہ نام نہیں رکھ سکتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسی رشتے دار نے ہی رکھا ہو گا کہ ’’اباحضور‘‘تو کسی دور میں بھی قابل احترام نہیں رہے‘(بیوی کی نظر میں )۔۔’’لیلی ‘‘نام اپنی خوب خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے ۔ہم جیسے انگریزی گٹ پٹ کے ڈسے ہوئے چونک چونک جاتے ہیں ۔مجنوں کو بھی اس کے نام نے چونکایا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر اس نے عشق میں نکما ہونے کا سرٹیفیکیٹ لینا ہی تھا ۔دن رات لیلی کے نام کی مالا جپا کرتا ۔صبح سرگی ویلے لیلی کی گلی کے نکڑ پر آکر کھڑا ہوجاتا کہ لیلی نے کوئی سودا سلف تو نہیں منگوانا ۔۔۔۔۔۔بڑا دردمند انسان تھا ۔جانتا تھا کہ لیلی کی ماں نے اسے صلواتیں ہی سنانی ہیں ناشتے میں ۔۔۔اس لئے اس کے لئے حلوہ پوری روما ل میں باندھ کے لے آتا اور لیلی کے کمرے کی کھڑ کی میں رکھ دیتا ۔آج کل کے عاشق نامراد تو بلا کے کام چور، سست اور تساہل پسند ہیں ۔کام کرتے ہوئے موت پڑتی ہے۔ناشتہ کھانا تو دور کی بات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔نوکری کرنے سے بھی جان جاتی ہے ۔بس دل چاہتا ہے فراز کے مصرع میں ڈوبے رہیں
بیٹھے رہیں تصور جاناں کئے ہوئے
شرماتی ،لجاتی لیلی پچھواڑے میں جا کر ناشتہ ٹونگ لیتی تھی ۔اماں سیر سپاٹوں کو نکل جاتی ۔لیلی،جہیز کی چادروں پہ پھول بوٹے کاڑھتی (عشقیہ شعر بھی تکئے کے غلافوں پہ کاڑھنے کا رواج تھا) صفائی ستھرائی ،لیپ لپائی،ہانڈی روٹی،کپڑوں کی دھلائی ۔۔۔۔۔۔۔کاموں کا انبار اور ایک اکیلی جان ۔۔۔۔۔پھر بھی مسکرتی رہتی،تھکن نہ ماتھے پہ شکن۔۔۔۔۔جبکہ ااج کل کی لیلائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔جھاڑو پکڑتے ہی انہیں ڈسٹ الرجی ہو جاتی ہے۔برتنوں کی دھلائی سے ناخنوں کی لمبائی متاثر ہونے کا خطرہ ،کپڑوں کی دھلائی کا سوچ کر ہی کمر میں ’’چک‘‘پڑ جاتی ہے ۔ہانڈی روٹی تو دور کی بات۔۔۔البتہ کوکنگ پروگرامز بہت غور سے دیکھتی ہیں ۔کھانا پکانے میں دلچسپی کی بنا پہ ہیں ۔ہوسٹس سکے بو تیکی کپڑوں اور کراکری کی وجہ سے۔۔
لیلی چونکہ پڑھی لکھی نہیں تھی ۔اس لئے مجنوں جو اسے خط لکھتا وہ خود ہی پڑھا کرتا تھا۔وہ خود کون سا پڑھا لکھا تھا ۔اس لئے جو حال دل آڑھی ترچھی لکیریں میں بیان کرتا ۔ظاہر ہی اسے ہی سمجھ آسکتا تھا ۔عطر میں بھیگا ہوا پریم پتر وہ بڑی محبت سے تکئے کے نیچے رکھا کرتا۔ایک دن اس کے ابا نے عطر کی خوشبو کا تعاقب کرتے ہوئے ۔اس کا محبت نامہ کھول کر پڑھ لیا اور غیرت سے اس کی آنکھیں ابل پڑیں ۔قریب لگے شیشم سے لکڑی توڑ کراس نے مجنوں کی وہ ٹھکائی کی ۔۔۔وہ ٹھکائی کی کہ اس کی ساری عاشقی ناک کے راستے باہر آگئی۔ابا نے متن دیکھ کر اندازہ لگایا تھا کہ وہ عشقیہ خط ہے۔اور جب مجنوں نے بتایا کہ وہ تو مولانا صاحب نے تعویزلکھ کر دیا تھا کاروبار میں اضافے کے لئے تو ابا نے وہ خط جسے وہ پرزوں میں اڑا چکے تھے پھر ہائے وائے کرتے پرزے اٹھااٹھا کر جوڑنے لگے ۔دور بڑا اچھا تھا بس لوگ پڑھے لکھے نہیں تھے ۔اس لئے غریب مجنوں پٹ جاتے تھے۔
اتنی مار کھانے کے بعد مجنوں نے خط لکھنے کا ارادہ ترک کیا اور ابا کے ساتھ امرود کی ریڑھی لگالی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ادھر لیلی بچاری حیران وپریشان کہ مجنوں کو کیا ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسے حلوہ پوری کیا یاد ستا رہی تھی مگر مجنوں کو غیرت آگئی تھی۔اس زمانے میں آہی جاتی تھی۔۔۔۔۔آج کل تو خال ہی نظر آتی ہے۔ان ہی دنوں لیلی کے لئے رانجھے کے دور کے رشتے دار کا رشتہ آگیا ۔رشتہ معقول تھا ۔ان کا خاندانی بنسریاں بنانے کا کارخانہ تھا ۔کھاتی پیتی فیملی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیلی کی ماں تو راضی بہ رضا تھی ۔لیکن لیلی کیا کرتی ۔وہ تو قیس کے پاجامے کرتے کی اسیر تھی۔اداس بلبل بنی سارا دن پیپل کے پیڑ تلے بیٹھ کر غمگین ٹپے گاتی ۔اڑتی پڑتی خبر مجنوں کو بھی ہوگئی۔اس کے ہاتھون کے سارے امرود اڑ گئے۔۔۔مطلب نیچے گر گئے ۔۔۔۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی وہ ابا کے قدموں میں
قصہ مختصر!ظالم سماج ہمیشہ آڑے آتا رہا ہے (ویسے نہ ائے تو لازوال محبتوں کے قصے کبھی معروف نہ ہوں )۔لیلی کی ماں نے چٹا انکار کر دیا کہ سوکھا سڑا مجنوں جسے خود دو وقت کی روٹی بمشکل نصیب ہوتی ہے ۔اس کی لاڈلی بیٹی کا کہاں سے کھلائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ا س دور میں ڈائٹنگ کا ’’فیشن ‘‘نہ تھا ورنہ لیلی بہانہ کر لیتی ۔۔۔۔بے چاری ماں کی مرضی کے آگے مجبور ہوگئی اور مجنوں جس کا نام قیس تھا ۔۔ناکام محبت کا غم سہار نہ پایا ۔دشت کی خاک چھاننے کھڑا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔سنتے ہیں کہ بعد میں لکڑ ہارا بن گیا تھا۔ہاں تو ہم کیا کہہ رہے تھے کہ ایک تھی لیلی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟